غزل
مہکتے پھولوں کی وادی میں کوئی مل نہ بن جائے
دھوئیں کے زہر سے، بستی، مریضٍ سل، نہ بن جائے
لبوں میں قید رکھو، لفظ کے اندھے شکاری کو
کہیں مفرور ہو کے، سوزٍ زخمٍ دل نہ بن جائے
ہر اک پل چینج ہوتے دور میں یہ خوف ھے مجھ کو
مرا سایہ بدن اور جسم اس کا ظل نہ بن جائے
کسی کو آشنائے لمسٍ تحریرٍ بدن کر لے
کہ تو بک شیلف میں، دیمک زدہ ناول، نہ بن جائے
حصارٍ خواہشٍ عصیاں کا افسوں توڑ دے زاہد
کہ تخمٍ حال کل کو فصلٍ مستقبل نہ بن جائے
زاہد حسین جوہری