غزل
میرا درماں ہے نہ کعبے میں نہ بت خانے میں
رند ہوں مجھ کو پڑا رہنے دو مے خانے میں
اس کو سمجھی ہے نہ سمجھے گی مجازی دنیا
ہے حقیقت ہی حقیقت مرے افسانے میں
لئے پھرتی ہے مجھے منزل جاناں کی تلاش
چین حاصل ہے گلستاں میں نہ ویرانے میں
ان کے کہنے سے اسے توڑ دوں کیسے آخر
علم جن کو نہیں کیا ہے مرے پیمانے میں
ربط باہم بھی عجب شے ہے گلے ملتے ہی
شمع کا نور نظر آتا ہے پروانے میں
حسن روپوش ہے تو دید کے قابل کیا ہے
اب کسے دیکھوں بھلا دہر کے غم خانے میں
سینچے جاؤ اسے تم اپنے لہو سے کشفیؔ
پھول کھل جائیں گے اک دن اسی ویرانے میں
کشفی لکھنوی