غزل
میکدے سے در جاناں کی طرف آئے ہیں
آج ہم کفر سے ایماں کی طرف آئے ہیں
لوگ جاتے ہیں بہاروں میں گلستاں کی طرف
ہم گلستاں سے بیاباں کی طرف آئے ہیں
دیدہ و دل کو ہے قربت ترے غم سے لیکن
اشک بہہ کر مرے داماں کی طرف آئے ہیں
جب بھی آداب جنوں ترک کئے ہیں ہم نے
ہاتھ وحشت میں گریباں کی طرف آئے ہیں
تھی جنہیں بحر حوادث میں کنارے کی تلاش
جانے کیا سوچ کے طوفاں کی طرف آئے ہیں
اہل گلشن پہ کوئی وقت پڑا ہے جب بھی
پھول اڑاڑ کے بیاباں کی طرف آئے ہیں
تیر اس کی نگہ ناز کے اکثر شاداںؔ
دل سے گزرے ہیں رگ جاں کی طرف آئے ہیں
شاداں بدایونی