غزل
میں تو کاغذ ہوں مجھے آگ پکڑ جائے گی
پر تری بات ہواؤں سے بگڑ جائے گی
خشک پیڑوں کی طرح زرد محبت ہے مری
اس پہ سبزہ نہیں آیا تو یہ جھڑ جائے گی
میں کہ مٹی کی عمارت ہوں کسی روز یوں ہی
دل یہ ڈھ جائے گا ہر اینٹ اکھڑ جائے گی
اتنا برفاب خموشی کا جزیرہ ہے یہاں
چار دن ٹھہروں تو آواز اکڑ جائے گی
تیرے کہنے پہ محبت کی بنفشی چادر
اوڑھ تو لی ہے مگر جلد ادھڑ جائے گی
سدرہ سحر عمران