Main Teray wastay Taza Gulab Ho jaoon
غزل
میں تیرے واسطے تازہ گلاب ہو جاؤں
تری کہانی کا میں انتساب ہو جاؤں
ہو اختیار میں میرے اگر خدا کی قسم
بکھر کے روشنی میں بے حساب ہو جاؤں
ہر ایک شخص کے زخموں پہ رکھ دے جو مرہم
میں کاش ایسی کوئی اک کتاب ہو جاؤں
رکھے جو زندگی قدموں میں تیرے کوئی سوال
میں اس سوال کا آساں جواب ہو جاؤں
لگے ہیں خود سا بنانے میں کچھ خرابے مجھے
وہ چاہتا ہے میں اس کا شباب ہو جاؤں
نگاہِ رشک سے دیکھے مجھے ہر اک غنچہ
میں شہرِ عشق کا ایسا نصاب ہو جاؤں
خدا کا فضل و کرم ہے بہت ہی انجم پر
سو ممکنات میں کب ہے میں خواب ہو جاؤں
شہناز انجم
Shahnaz Anjum