میں نعرۂ مستانہ میں شوخئ رندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں پی کر بھی کہاں جانا
میں طائر لاہوتی میں جوہر ملکوتی
ناسوتی نے کب مجھ کو اس حال میں پہچانا
میں سوز محبت ہوں میں ایک قیامت ہوں
میں اشک ندامت ہوں میں گوہر یک دانہ
کس یاد کا صحرا ہوں کس چشم کا دریا ہوں
خود طور کا جلوہ ہوں ہے شکل کلیمانہ
میں شمع فروزاں ہوں میں آتش لرزاں ہوں
میں سوزش ہجراں ہوں میں منزل پروانہ
میں حسن مجسم ہوں میں گیسوئے برہم ہوں
میں پھول ہوں شبنم ہوں میں جلوۂ جانانہ
میں واصفؔ بسمل ہوں میں رونق محفل ہوں
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں میں شہر میں ویرانہ
واصف علی واصف