غزل
مے بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی بھی پیمانہ بھی ہے
دیکھنا یہ ہے کہ ہم میں ذوق رندانہ بھی ہے
رقص پروانہ بھی دیکھ اے چشم عبرت یہ بھی دیکھ
شمع کی آغوش میں کچھ خاک پروانہ بھی ہے
ہم نے مانا ہے سکوں دامان ساحل میں مگر
فطرت اہل جنوں طوفاں سے ٹکرانا بھی ہے
اے طلب گار مسرت یہ بھی سوچا ہے کبھی
اک مسرت اپنے دل کو غم سے بہلانا بھی ہے
جس نے جو چاہا اسے سمجھا کیا اے ہم نشیں
زندگانی اک حقیقت بھی ہے افسانہ بھی ہے
اہل دل کے واسطے ہے بحر عیش و انبساط
گو بظاہر بزم ہستی ایک غم خانہ بھی ہے
دو گھڑی اے گردش ایام بس رک جا یہیں
ساقی رعنا بھی ہے گردش میں پیمانہ بھی ہے
جلوہ آرا ذرے ذرے میں ہے نور برق طور
لیکن اے صابرؔ کہیں ذوق کلیمانہ بھی ہے
صابر ابوہری