نارسائی کی تھکن میں اک سفر میں نے کیا
خود کو یوں دشت۔طلب میں در بدر میں نے کیا
میں نے خود رکھی تھی شہر۔جاں میں وحشت ہجر کی
یوں تری فرقت کے لمحوں کو شرر میں نے کیا
عرصئہ عمر۔رواں میں کچھ طلب رکھی نہیں
شہرِ ناپرساں میں جینے کا ہنر میں نے کیا
خود کو رکھا کم تقاضہ بیش و کم سوچا نہیں
اپنی ہر خواہش سے پھر صرف۔نظر میں نے کیا
ایک مدت جو رہیں پہچان سے نا آشنا
کتنی حیرت ہے کہ ان آنکھوں میں گھر میں نے کیا
وقت کے ماتھے پہ لکھ کر لفظ۔نا آسودگی
داستان۔زندگی کو مختصر میں نے کیا
اک سمندر موجزن تھا دل میں میرے مدتوں
اس کو قطرہ قطرہ زیب۔چشم۔تر میں نے کیا
خواب رکھا آنکھ میں کوئ۔نہ وحشت ہی حجاب
اپنی ہر اک آرزو کو معتبر میں نے کیا
حجاب عباسی