نارسائی ہے کہ تو ہے کیا ہے
یاد کرکے جسے جی ڈوبا ہے
اے غمِ جاں ترے غم خواروں کا
صبر اب حد سے سوا پہنچا ہے
آئینہ تھا کہ مرا پیکر تھا
تیری باتوں سے ابھی بکھرا ہے
آنکھ کس لفظ پہ بھر آئی ہے
کون سی بات پہ دل ٹوٹا ہے
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں کوئی
زندگی بن کے چھپا بیٹھا ہے
مردہ دل ہم بھی نہ تھے پر اب کے
حادثہ ہم پہ عجب گزرا ہے
اب سے پہلے کئی صدیاں پہلے
جیسے خود کو بھی کہیں دیکھا ہے
آسماں جھانک رہا ہے خالدؔ
چاند کمرے میں مرے اُترا ہے
خالد شریف