غزل
ناسازیٔ حالات نے دل توڑ دیا ہے
دنیا کی ہر اک بات نے دل توڑ دیا ہے
کچھ ساقئ محفل بھی رہا رندوں سے برہم
کچھ شدت آفات نے دل توڑ دیا ہے
آغاز ملاقات میں کیا جوش تھا دل میں
انجام ملاقات نے دل توڑ دیا ہے
بے حال و پریشاں ہے بشر روز ازل سے
فرسودہ روایات نے دل توڑ دیا ہے
اپنوں کی عنایات کا ہم ذکر کریں کیا
اپنوں کی عنایات نے دل توڑ دیا ہے
کل آپ کی ہر بات سے تسکین ملی تھی
آج آپ کی ہر بات نے دل توڑ دیا ہے
ہم تشنہ دہن بیٹھے ہیں میخانے میں عاصیؔ
امڑی ہوئی برسات نے دل توڑ دیا ہے
پنڈت ودیا رتن عاصی