ناسزا عالم امکاں میں سزا لگتا ہے
ناروا بھی کسی موقع پہ روا لگتا ہے
یوں تو گلشن میں ہیں سب مدعیٔ یک رنگی
باوجود اس کے ہر اک رنگ جدا لگتا ہے
کبھی دشمن تو کبھی دوست کبھی کچھ بھی نہیں
مجھے خود بھی نہیں معلوم وہ کیا لگتا ہے
اس کی باتوں میں ہیں انداز غلط سمتوں کے
ہو نہ ہو یہ تو کوئی راہنما لگتا ہے
نہ ہٹا اس کو مرے جسم سے اے جان حیات
ہاتھ تیرا مرے زخموں کو دوا لگتا ہے
دور سے خود مری صورت مجھے لگتی ہے بھلی
جانے کیوں پاس سے ہر شخص برا لگتا ہے
روکتا ہوں تو یہ رکتا ہی نہیں ہے اعجازؔ
مجھے ہر روز و شب وقت ہوا لگتا ہے
اعجاز صدیقی