ناوکِ وقت نہ شمشیرِ جفا کے باعث
مر گئے ہم تو فقط تیری رضا کے باعث
ہائے اُس برگِ تر و تازہ کی تقدیر کہ جو
گِر گیا شاخ سے منہ زور ہوا کے باعث
ورنہ پُر خوف و بلا خیز تھا جادہ ء حیات
ہے جو رنگیں تو ہمی آبلا پا کے باعث
صبحِ کاذب کی طرح لوگ یہاں ملتے ہیں
عالمِ نِزع ہے اک دوست نما کے باعث
عین ممکن تھا رگِ جاں میں لہو جم جاتا
مگر اکِ بوسہ لب ِ مہر لقا کے باعث
دیدہ و دل میں ہمہ وقت ٹھنی ہوتی ہے
کتنی اُلجھن ہے ترے بند ِ قبا کے باعث
دن کے آنگن کا اُجالا ہیں ترے عارض و لب
رات ہوتی ہے تری زلف ِ رسا کے باعث
درد کیا کیا نہ مِٹے ‘ دردِ محبت کے طفیل
اُڑ گئے ہوش ‘ رُخِ ہوش رُبا کے باعث
آصف جاوید