نفس نفس ہے ترے غم سے چور چور اب تک
نہ شام ہے نہ سویرا قریب دور اب تک
سنی سنائی پہ مت جا ذرا قریب تو آ
سزا نہ دے کہ محبت ہے بے قصور اب تک
مچل رہی ہے کہیں جوئے شیر اے فرہاد
کلیم سن تو سہی جل رہا ہے طور اب تک
مرے خدا میں کہاں جاؤں کس طرح ڈھونڈوں
مجھے پکار رہا ہے کوئی ضرور اب تک
نہ تو مرا نہ تری ہم نشینیاں میری
بھرم ہے جس کو سمجھتے ہیں سب غرور اب تک
ادھر وفور محبت ادھر مروت تھی
جو کچھ کہا تھا بھلا دے ترے حضور اب تک
چلا گیا ہے مکیں چھوڑ کر مکاں اپنا
کوئی نہیں ہے مگر چھن رہا ہے نور اب تک
وہ ایک حادثۂ روح و دل کہ بیت گیا
جسے نہ مان سکا شاذؔ کا شعور اب تک
شاذ تمکنت