Nawaboon ko Kaneezoon ki Farawani nay mara hay
غزل
نوابوں کو کنیزوں کی فراوانی نے مارا ہے
مسلمانو تمہیں جوشِ مسلمانی نے مارا ہے
موبائل پر کسی سے غیر شرعی بات کرتا ہے
بس اتنی بات پر ملا کو ملانی نے مارا ہے
میں اک چھوٹا سا شاعر ہوں بہت راحت میں رہتا ہوں
بڑے استاد کو زعمِ سخن دانی نے مارا ہے
سنا ہے کیپٹل میں خوشنما بکروں کی منڈی ہے
مگر صوبوں کو انسانوں کی قربانی نے مارا ہے
انہیں آرائشِ گیسو کے بارے میں ہے الجھاوا
مجھے زلفِ پریشاں کی پریشانی نے مارا ہے
یہ لالو کھیت کی ندی کے فوارے سے آتا ہے
جسے منزل سمجھتے ہیں اسی پانی نے مارا ہے
مریضِ دل سیانا تھا طبیبوں سے تو بچ نکلا
پر اگلے دن اسو ڈبے کی بریانی نے مارا ہے
ہر اک سامع کو دے مارا ہے تیری شعر گوئی نے
تجھے اے خالدِ عرفاں غزل خوانی نے مارا ہے
خالد عرفان
Khalid Irfan