نِرالی دُھوپ انوکھے حساب کا سُورج
ہمیں مِلا ہے بڑے اکتساب کا سُورج
بتاؤ اہلِ چمن کیسے تُم سے ہے مُمکن
الگ چمیلی سے ہوگا گُلاب کا سُورج
تمام شب وہ جو ماہتاب ہے میرا
تمام دِن میں اُسی ماہتاب کا سُورج
تُمہارے پاس کئی چاند ہیں سوالوں کے
ہمارے پاس فقط اِک جواب کا سُورج
خبر نہیں ہے کِدھر کل وہ جاکے ڈُوبے گا
دَمکتا آج بہت ہے جناب کا سُورج
سُکون خوف زدہ ہے اِسی لیے ہم سے
رگوں میں دوڑتا ہے اضطراب کا سُورج
یہ آفتاب سرِ شام ڈُوب جاتا ہے
نہیں یہ وہ نہیں ہے میرے خواب کا سُورج
بڑے ہی سوچ سمجھ کر کہی غزل میں نے
چمک رہا ہے بہت اِنتخاب کا سُورج
اُٹھو اُٹھو کہ بہت دیر ہوگئی جاویدؔ
نِکالنا ہے تُمہیں انقلاب کا سُورج
جاوید احمد خان جاویدؔ