غزل
نہ احترام کا بس احترام کر بیٹھے
ہم اپنے کرب کا خود انتظام کر بیٹھے
انہیں تو آنا ہی کب تھا ہماری بستی میں
ہزار طرح کے ہم اہتمام کر بیٹھے
یہ بے رخی کا عجب سلسلہ تو تب سے ہے
وہ گزرے راہ سے اور ہم سلام کر بیٹھے
خموش طبع تھے دامن بچا کے چل دیے وہ
اور ہم نصیب کے مارے کلام کر بیٹھے
لگاؤ آس نا امید رکھو تم ماہمؔ
بجھاؤ شمع وہ قصہ تمام کر بیٹھے
ماہم شاہ