غزل
نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پوچھیے اپنی جبیں سے
چلی آتی ہے ہونٹوں پر شکایت
ندامت ٹپکی پڑتی ہے جبیں سے
اگر سچ ہے حسینوں میں تلون
تو ہے امید وصل ان کی نہیں سے
کہاں کی دل لگی کیسی محبت
مجھے اک لاگ ہے جان حزیں سے
ادھر لاؤ ذرا دست حنائی
پکڑ دیں چور دل کا ہم یہیں سے
جنوں میں اس غضب کی خاک اڑائی
بنایا آسماں ہم نے زمیں سے
وہاں عاشق کشی ہے عین ایماں
انہیں کیا بحث انورؔ کفر و دیں سے
انور دہلوی