غزل
نہ پوچھو دوست ہےکیاحال دنیا کی عدالت کا
یہاں معیار دہرا ہے ، غربت اور امارت کا
ہوا اقبال کا شاہین ،عادی عیش و عشرت کا
کہاں سے لائے گا جذبہ،وہ اب شوق شہادت کا
نہیں راہوں سے شکوہ کچھ،ہمیں راہبر نےلوٹاہے
کہ اس نےکھیل کھیلا ہے،سیاست سے قیادت کا
امیر شہر کو نسبت ذرا بھی ہوتی قراں سے
شعور – آگہی ہوتا ، اسے پھر ختم- نبوت کا
سدا اسلام پھیلا ہے، حکمت اور تحمل سے
یہ مذہب درس دیتا ہے ، محبت کا اخوت کا
جو ہیں اسلام کے دشمن، وہ اب آقا ہمارے ہیں
دلوں پر مہر ، آنکھوں پر پڑا ہے پردہ غفلت کا
وہی ہے دیکھتی آنکھیں،کہ جو دل دیکھناچاہے
نہیں ہے صوفیہ اس میں قصور اپنی بصارت کا
صوفیہ حامد خان