نیند آۓ ، تو ترے خواب بھی دَر آتے ہیں
روز حسرت لیے ، بستر کی طرف جاتے ہیں
ہر نٸی صُبح ، نۓ دَرد کی دیتی ہے خبر
ہر نٸی شام ، کوٸی زخم نیا کھاتے ہیں
سَرد موسم ہو تو ہم آتش ِ دل سے ، اپنی
اپنے جذبوں کو حرارت سی دیۓ جاتے ہیں
چاندنی رات ، سَمندر کا کنارہ ، ہم تم
ایک تصویر ، تصوّر سے چُرا لاتے ہیں
اُن نگاہوں کا یہ اعجاز بھی دیکھا ہم نے
اِک نظر ڈالے تو گِرتے بھی سَنبھل جاتے ہیں
سُرخ ہو شَرم سے یا خَوف سے زَردی ماٸِل
اُس کے چہرے کے یہی رنگ ہمیں بھاتے ہیں
قِصّہ ِ دَرد سُناٶں ، تو مُنڈیروں پہ میری
گھر کو جاتے یہ پرندے بھی ٹہر جاتے ہیں
چاہتا کوٸی نہیں دَرد کی تَشہیر ، مگر
کَرب کے رنگ تو ، چہروں پہ نظر آتے ہیں
دَرد جب دل میں سِوا ہونے لگے ، رات ڈھلے
ہم غزل میر کی پڑھتے ہوۓ سو جاتے ہیں
کچھ رہی اپنی خبر اور نہ منزل کی ، عظیم
جانےکس سَمت میں چلتے ہیں کِدھر جاتے ہیں
یونس عظیم