غزل
نے آدمی پسند نہ اس کو خدا پسند
ہے آئینے میں قید مرا آئینہ پسند
وہ چار دن بھی ہم سے نباہی نہیں گئی
وہ معتدل مزاج تھا میں انتہا پسند
وہ خود فریب شخص تھا پتھر شناس تھا
آیا نہ اس کو کوئی بھی اپنے سوا پسند
جب کوئی فرق شاہد و مشہود میں نہیں
کیسے کرے کسی کو کوئی دوسرا پسند
پوچھے ہے ہم نے کاہے کیا کفر اختیار
غفلت پسند ہے نہ ہمیں آسرا پسند
کھولی ہے جب سے آنکھ کبھی سو نہیں سکے
کیونکہ ہمیں ہے خواب میں بھی جاگنا پسند
میں بھی یہ برگ سبز بھی ماہی بھی مرغ بھی
باندھے ہوئے ہیں موت نے سارے ہوا پسند
خارج کی بات آنکھ سے آگے کی تھی مگر
سب قیدیوں کو روزن دیوار تھا پسند
آکاشؔ ایک شخص ہے اوروں سے مختلف
پہلی نظر میں ہی تمہیں آ جائے گا پسند
امداد آکاش