وحشتوں کے صحرا میں روشنی کے لانے تک
زیست بےاماں گذری اک تجھےمنانے تک
تھی رفاقتیں کیسی تیرے ساتھ ہی گزریں
جانے کیا کیا کھویا ہے اک تجھےمنانے تک
رقص کرتی ہیں لہریں وجد میں ہے دریا بھی
ان کے پاوں چھونے تک ان کے بھیگ جانے تک
اس کی یہ تمنا تھی اس کے میں صفت لکھوں
میں نے پھول بھیجے ہیں اس کے مسکرانے تک
ان کے مسکرانے سے شوخیاں بکھرتی ہیں
میرے اس گھروندے سے ان کے اشیانے تک
شدت طلب اتنی بڑھ گئی فنا میری
میں غزل سناوں گا اس کے لوٹ انے تک
سید ظہیر فنا شموگا