غزل
وقار اپنے بزرگوں کا ذرا بھی کم نہیں کرتے
کبھی ہم ظالموں کے سامنے سر خم نہیں کرتے
تواضع کے لیے کانٹوں کی ان کو پال رکھا ہے
سفر میں ہم مسافر آبلوں کا غم نہیں کرتے
ہم اہل ظرف خوشیوں میں بھی قابو خود پہ رکھتے ہیں
دکھی ہو کر بھی دکھ سے آستینیں نم نہیں کرتے
ہمارے لفظ زخموں کے لیے بنتے تو ہیں مرہم
مگر پھر بھی مسیحائی کا دعویٰ ہم نہیں کرتے
نظر رکھتے ہیں مستقبل کی جانب ہم نظر والے
کبھی گزرے زمانوں کے لیے ماتم نہیں کرتے
فلک والوں کی جانب ان کی ساری مہربانی ہے
غریبوں پر توجہ قبلۂ عالم نہیں کرتے
کتابوں سے بھرے بستوں نے کچھ ایسا دبایا ہے
نیازؔ اس دور کے بچے بہت اودھم نہیں کرتے
عبدالمتین نیاز