وہ جو اِک پھول ہے پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
نرم لہجہ کبھی خنجر بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ چاہت میں وہ سینے سے لگے
اِس لپٹنے کا سبب ڈر بھی تو ہو سکتا ہے
دُور سے پھول جسے آپ نے بھجوائے ہیں
آپ سے مِل کے وہ بہتر بھی تو ہو سکتا ہے
ہم جسے آپ کے آنچل کی جھلک سمجھے ہیں
کوئی خوش رنگ سا منظر بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ دروازے پہ پتھر ہی لگے
دیکھ باہر تِرا نیّرؔ بھی تو ہو سکتا ہے
شہباز نیر