غزل
وہ جو رو رہا تھا وہ ہنس پڑا وہ جو ہنس رہا تھا وہ رو دیا
یہاں اک جزیرہ بنا دیا وہاں اک جزیرہ ڈبو دیا
یہ بنانے والے کا شوق ہے کہیں ہار ہے کہیں طوق ہے
کہیں واہ ہے کہیں آہ ہے کہیں پا لیا کہیں کھو دیا
وہ اسیر حسن بیان ہوں میں زبان کا وہ کسان ہوں
کہ زمین مجھ کو جہاں دکھی وہیں اک خیال کو بو دیا
وہ جہان ہست کے موتیوں کو پرو رہا تھا کمال میں
میں بھی سامنے تھا پڑا ہوا تو مجھے بھی اس نے پرو دیا
نہ طلسم ہے نہ یہ سحر ہے یہ کمال کوزۂ شعر ہے
کہ اسی سے بحر رواں کیا اور اسی میں بحر سمو دیا
احتشام الحق صدیقی