غزل
وہ زندگی جو شب انتظار گزری تھی
ترے کرم سے بہت خوش گوار گزری تھی
غضب کہ آج وہی دل ہے غم کش دنیا
نگاہ ناز بھی کل جس پہ بار گزری تھی
سکوں نصیب وہی اب ہیں جن کی عمر کبھی
حریف گردش لیل و نہار گزری تھی
فریب نور سحر دے گئی نگاہوں کو
جو برق رات سر شاخسار گزری تھی
زمانہ آج قیامت سمجھ رہا ہے جسے
وہی تو سر سے مرے بار بار گزری تھی
خبر ہے کس کو نشیمن کے چار تنکوں کی
یہ جانتا ہوں صبا بے قرار گزری تھی
نہ جانے کیوں ہے محبت کو پھر اسی کی تلاش
وہ برہمی جو کبھی ناگوار گزری تھی
نظیرؔ لالہ و گل پر نکھار ہے اب تک
ہے کب کی بات چمن سے بہار گزری تھی
سعادت نظیر