غزل
وہ غم جو محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
پرکیف اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
انسان کی معراج ترقی کی حکایت
خالق کی عنایت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
سچ پوچھیے ان حسن کے جلوؤں کی حقیقت
آداب محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
کیا کہیے کہ معیار عروج دل آدم
ایمان و فراست کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
یہ دبدبہ و شوکت و تنظیم و سیاست
اک غلبہ و قوت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
اب خدمت اقوام کے پردہ میں بھی اکثر
تمکین سیاست کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
یہ حسن کی رنگینیٔ دل کش کا تأثر
احساس طبیعت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
یہ بے خودی و ہوش کا معیار توازن
ساقی کی کرامت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
یہ جلوہ گہہ گلشن ایجاد کا عالم
اک امر مشیت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
اس دور کے رنگین معانی میں بھی اکثر
الفاظ کی ندرت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
انعامؔ غم عشق کا طوفان بلا خیز
احساس کی شدت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
انعام تھانوی