غزل
وہ پھول تھا جادو نگری میں جس پھول کی خوشبو بھائی تھی
اسے لانا جان گنوانا تھا اور اپنی جان پرائی تھی
وہ رات کا طول طویل سفر کیا کہئے کیسے آئی سحر
کچھ میں نے قصہ چھیڑا تھا کچھ اس نے آس بندھائی تھی
خوابوں سے ادھر کی مسافت میں جو گزری ہے کیا پوچھتے ہو
اک وحشت چار پہر کی تھی اک جلتی ہوئی تنہائی تھی
وہ رات کہ جس کے کناروں پر ہم ملتے اور بچھڑتے تھے
اک بار مجھے تنہا پا کر اس کی بھی آنکھ بھر آئی تھی
ہر شام افق کی دوری پر کوئی سہما سہما پھرتا تھا
تصویر جو اس کی بنائی تو خود اپنی شکل بنائی تھی
صابر وسیم