غزل
وہم و گماں نے آس بندھائی تمام رات
آہٹ خرام ناز کی آئی تمام رات
مجبور ہو کے میں نے محبت کی چھاؤں میں
تاروں کو دل کی بات سنائی تمام رات
مسرور ہو کے چاند نے اک چاند کے لیے
کیا چاندنی زمیں پہ بچھائی تمام رات
کھا کر ترس گدازیٔ سوز فراق پر
اشکوں نے دل کی آگ بجھائی تمام رات
یاد آپ کی ہے آپ سے بڑھ کر کرم نواز
آپ اک گھڑی کو آئے وہ آئی تمام رات
تصویر ان کی سامنے رکھ کر بصد الم
روداد اضطراب سنائی تمام رات
در پر نگاہ دل میں تڑپ روح مضطرب
تکلیف انتظار اٹھائی تمام رات
چشم جلیؔ نے حسرت جلوہ لیے ہوئے
اشکوں سے بزم عشق سجائی تمام رات
جلی امرہوی