Patang e Shairy Kehnay ko tu Tani hoi hay
غزل
پتنگِ شاعری کہنے کو تو تنی ہوئی ہے
خبر کسی کو نہیں جان پر بنی ہوئی ہے
رہے گی جسم پہ قائم قبائے جاہ و جلال
یہ روح جسم سے جب تک مرے منی ہوئی ہے
میں وہ چراغ ہوں دل کے مزار کا جس کی
نسیمِ صبحِ بہاراں سے ہی ٹھنی ہوئی ہے
ملے گی کیسے تخیل کو آخری منزل
یہ خود پرستی میں جب سوچ ہی سنی ہوئی ہے
شکم کی آگ بنی جا رہی ہے ایندھنِ جاں
نجانے کیسی ہواؤں سے دشمنی ہوئی ہے
سمجھ رہا تھا کہ آنکھوں سے رائیگاں ٹپکے
یہ شاخِ صبر مگر ان سے ہی گھنی ہوئی ہے
سمجھ میں آ نہیں سکتے کسی کو دکھ میرے
یہ زندگی بھی کسی ماں کی ہی جنی ہوئی ہے
پکڑ کے گدی سے کھینچی تھی ہم نے اپنی زباں
پھر اس کے بعد یہ تقدیر بھی غنی ہوئی ہے
مرے وجود کو بیٹے نے جب دیا کاندھا
تمام پھر کہیں یہ بزمِ جاں کنی ہوئی ہے
اے میری موجِ نسیمی سنبھل کے رکھنا قدم
یہ راہ عشق غلاضت سے اب سنی ہوئی ہے
نسیم شیخ
Naseem Shaikh