غزل
پوچھ لیتے ہیں وہ اکثر کہ ہے حالت کیسی
ہم پہ ہو جاتی ہے ان کی یہ عنایت کیسی
عہد حاضر میں تو ہے ذکر بھی ان کا بے سود
کیسا آئین وفا اور مروت کیسی
غیر کے غم میں بھی بے ساختہ رو دیتے ہیں
ہم کو اللہ نے بخشی ہے طبیعت کیسی
عشق صادق ہے ہمارا تو ہمیں کیا معلوم
شکوہ کیا ہوتا ہے ہوتی ہے شکایت کیسی
دست قدرت کا کرشمہ اسے سمجھیں ورنہ
خار اور گل میں بھلا باہمی صحبت کیسی
آپ آئے ہیں عیادت کو تو دم بھر ٹھہریں
حال دل پوچھنے میں ایسی بھی عجلت کیسی
ہم تو ہر حال میں راضی بہ رضا ہیں گوہرؔ
ہم نہیں جانتے ہوتی ہے عبادت کیسی
کلدیپ گوہر