پوچھے نہ مجھ سے کوئی کہاں پر مکیں ہوں میں
ملتا سکوں جہاں وہیں مسند نشیں ہوں میں
ہوں خاک کا میں ذرّہ نگینہ نہیں ہوں میں
رب کا کرم ہے خاص کہ سجدہ نشیں ہوں میں
خالق نے مجھ کو بخشا ہے اک ایسا مرتبہ
اُس کے جمال و نُور سے روشن جبیں ہوں میں
مجھ کو نہیں ہے شوق نمائش نمود کا "
ایسے کسی ہجوم کا حصہ نہیں ہوں میں "
مجھ میں نہیں غرور و تکبّر کا بھی نشاں
کرتی ہوں سجدہ خاک پہ ، بنتِ زمیں ہوں میں
شب کی ریاضتوں سے یہ آگاہی مل گئی
پھولے نہیں سمائی کہ جنت مکیں ہوں میں
سلمیٰ پہ فضل و رحم تُو کرنا مِرے خدا
دنیا سے دُور ہوکے بھی تیرے قریں ہوں میں
سلمیٰ رضا سلمیٰ