loader image

MOJ E SUKHAN

پہلی خاتون شاعرہ و ادیب اکادمی ادبیات پاکستان کی۔ صدر

پہلی خاتون شاعرہ و ادیب اکادمی ادبیات پاکستان کی۔ صدر

جس طرح پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز بے نظیر بھٹو کو حاصل ہوا ٹھیک اسی طرح شعر و ادب کے فروغ اور شعرا و ادبا کے ادارے اکادمی ادبیات پاکستان کی پہلی خاتون صدر نشین بننے کا اعزاز پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف کو حاصل ہے۔ نجیبہ عارف نے ۲۴ ستمبر۱۹۶۴ءکو پنجاب کے شہر خوشاب میں میر ظفر علی کے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ گھر میں ادبی ماحول بالخصوص والدہ محترمہ ہدیہ ظفرکی ، جو خود نوشت ’’جیون دھارا‘‘ کی مصنفہ بھی ہیں،تربیت نے شعر و ادب کی جانب مائل کیا جبکہ شریک حیات عارف بھی ادیب ہیں، جو سفرنامہ ’’حاضر سائیں‘‘ کے مصنف ہیں۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز خوشا ب سے کیا اور وہیں سے میٹرک کیا۔سرگودھا سے اردو ادب، فلسفہ اور فارسی کے مضامین کے ساتھ بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ پنجاب یونی ورسٹی، لاہور سے ۱۹۸۶ء میں برونز میڈل کے ساتھ ایم۔پی۔اے کی ڈگری حاصل کی ۔لیکن چوں کہ ابتدا ہی سے زبان و ادب سے گہری دل چسپی تھی اس لیے۱۹۸۷ء میں پنجاب یونی ورسٹی ، لاہور سے ایم ۔ اے۔ اردو کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ۱۹۹۵ء میں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد سے گولڈ میڈل کے ساتھ ایم ۔ فل اقبالیات کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسی ادارے سے ۲۰۰۳ء میں”ممتاز مفتی کا فکری ارتقا” پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ۔ ڈی اُردو کی ڈگری بھی حاصل کی۔۲۰۰۸ء میں نیشنل یونی ورسٹی اوف ماڈرن لینگوئجز(NUML)،اسلام آباد سے ایم ۔اے ۔انگریزی کی ڈگری لی اور ۲۰۱۳ء میں یونی ورسٹی اوف لندن سےچارلس ویلس پوسٹ ڈوک فیلو شپ مکمل کی۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف نے جنوری۱۹۸۸ء میں ایلی منٹری کالج برائے خواتین،جوہر آباد میں اردو کے استاد کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ جون ۱۹۹۲ء میں فیڈرل کالج برائے خواتین ایف ۔ سیون ٹو میں اردو کی لیکچرار تعینات ہوئیں۔ دسمبر ۲۰۰۳ء میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر اسلام آباد ماڈل کالج برائے خواتین ایف سیون فور میں ذمہ داریاں سنبھالیں اور وہاں ایم اے اردو کا آغاز کیا۔ جولائی۲۰۰۷ء میں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر ذمہ داریاں سنبھالیں اور ۲۰۰۸ء میں صدر شعبہ ٔ اردو مقرر ہو گئیں۔۲۰۱۰ء میں تین سال سبکدوش رہنے کے بعد ۲۰۱۳ء میں دوبارہ صدر شعبہ اردو مقرر ہو ئیں اور جنوری ۲۰۲۰ء تک اس عہدے پر فائزر ہیں۔ اس دوران میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کے منصب پر فائز رہیں۔ فروری ۲۰۲۱ء میں ڈین کلیۂ زبان و ادب کے عہدے پر ان کا تقرر ہوا۔اس کے علاوہ وہ مختلف ادوار مین یونی ورسٹی کی سٹوڈنٹس ایڈوائزر کے ساتھ ساتھ دیگر کئی اہم علمی و انتظامی امور کی نگران بھی رہیں۔اگست۲۰۲۳ء میں ان کا تقرر اکادمی ادبیات پاکستان کی پہلی خاتون صدر نشین (چئیر پرسن)کے طور پر ہوا اور ان کے تقرر کو ملک اور ملک سے باہر ادبی و علمی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔
ادبی تخلیقات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر نجیبہ عارف ایک کثیر الجہات شخصیت ہیں ۔ وہ محقق، شاعرہ، مترجم، نقادافسانہ نگار،ناول نگار اور سفر نامہ نگار ہیں۔ شاعری،فکشن، رپورتاژ و سفرنامہ نگاری ان کے پسندیدہ شعبہ ہائے ادب ہیں۔ان کے شعری مجموعے’’معانی سے زیادہ‘‘ نے ۲۰۱۵ء کی بہترین کتاب کا ایوارڈ حاصل کیا ۔موصوفہ کی روحانی جستجو پر نگاہ دوڑائی جائے تو ان کی کتاب ’’راگنی کی کھوج میں‘‘اس کی مکمل تفسیر پیش کرتی ہے ۔ افسانہ نگاری میں ’’میٹھے نلکے‘‘ملاحظہ کی جا سکتی ہے جب کہ ناول میں ’’ مكھوٹا‘ کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ان کے علاوہ دو سفرنامے اور متعددعلمی، تحقیقی اور انشائی مضامین شائع ہوکر دنیائے ادب کا ورثہ بن چکے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ ڈاکٹر نجیبہ عارف پاکستان میں اردو کے تحقیقی مجلات کی اشاریہ سازی کے پہلے ادارے ‘‘مرکز اشاریہ سازی‘‘ کی بانی ہیں جس کے تحت’’اشاریۂ اردو جرائد‘‘کی پانچ جلدیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں ۔ موصوفہ کی علمی دلچسپی کا اندازہ نوآبادیاتی دور میں غرب شناسی، سیرت نویسی، بر عظیم کی صوفیانہ روایت اور اردو ادب، بالخصوص فکشن کا سماجی و سیاسی مطالعہ جیسے موضوعات سے دل چسپی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے یورپ کی مختلف لائبریریوں سے اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے بیشتر قدیم مخطوطات دریافت کیے اور انھیں ترتیب و تدوین کے بعد شائع کیا۔بحثیت مترجم انگریزی نظموں اور نثرپاروں کے اردو تراجم کے ساتھ ساتھ ایک ضخیم کتاب Allah-Measuring the Intangible کے اردو زبان میں ترجمے کے علاوہ معروف قصیدہ بردہ شریف کا عربی سے اردو میں منظوم ترجمہ ’’نواح کاظمہ‘‘ بھی طبع ہو چکا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر نجیبہ عارف کی ادبی خدمات اردو ادب کے مختلف شعبوں میں اہمیت کی حامل ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے ادب کو جمالیاتی زاویے کے ساتھ ساتھ سماجی، ثقافتی اور نسوانی تناظر کو بھی اہمیت کا حامل جان کر ایک نیا شعور اجاگر کرتے ہوئے عورت کی آواز، عزت اور مشکلات کو مرکزیت دیتے ہوئے یہ باور کرایا ہے کہ ادب صرف اور صرف فرد کی ذاتی زندگی کی عکاسی نہیں بلکہ سماج ، ثقافت اورحقیقتوں کا بھی آئینہ دار ہوتا ہے۔
ڈاکٹرنجیبہ کی شاعری کی بات کی جائے تو نظر آتا ہے کہ انھوں نے اچھوتے موضوعات میں انسانی جذباتی کیفیت، جہد مسلسل اور معاشرے کی ناہمواریوں کو بڑی مہارت اور نہایت سادگی کے ساتھ قارئین کے دل تک منتقل کیا ہے۔اور جہاں تک ان کی تحقیق و تنقید کا تعلق ہے ،اگر یوں کہا جائے کہ ان کی تحقیقاتی تحریریں اور تنقیدی تجزیے اردو ادب میں ایک نیا شعور بیدار کرتی ہیں تو بے جا نہ ہوگا

سید فیاض الحسن