پہلے بہشتِ جاں سے گزارا گیا ہوں میں
پھر رمز معرفت میں اتارا گیا ہوں میں
یہ عشق اب کی بار کہاں لے کے جاۓ گا
پہلے بھی اس کے ہاتھ سے مارا گیا ہوں میں
اپنی سماعتوں سے مجھے یوں گریز تھا
جانے کے بعد ہی تو پکارا گیا ہوں میں
ان کی منافقت بھی مجھےہے عزیز تر
اپنوں پہ اس طرح سے بھی وارا گیا ہوں میں
لفظوں کی شال شال نے مجھ کو سجا دیا
سوچوں سے اپنی آپ نکھارا گیا ہوں میں
وہ عشق مر گیا تھا بشؔر پھر یہ کیا ہوا
کیوں روگ کی لحد میں اتارا گیا ہوں میں
مبشر سلیم بؔشر