Pwhlay say aaj Kitni Juda Ho gaee Hoon Main
غزل
پہلے سے آج کتنی جدا ہو گئی ہوں میں
حیرت سے تک رہی ہوں کہ کیا ہو گئی ہوں میں
اپنی ہنسی کی تہ میں جب اتری تو یہ کھُلا
اندر سے جانے کب کی فنا ہو گئی ہوں میں
پہنچے کسی کو چوٹ تو ہوتا ہے مجھ کو درد
ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا ہو گئی ہوں میں
جو لوگ میرے پیروں سے کھینچا کئے زمین
ان کے لئے سراپا دعا ہو گئی ہوں میں
خودداری کا اثاثہ سنبھالے ہوئے ہوں بس
مت سمجھو کہ اسیرِ انا ہوگئی ہوں میں
حالات نے کچھ اور نکھارا مرا وجود
یعنی مثالِ برگِ حنا ہو گئی ہوں میں
اس کو کبھی بکھرنے تبسؔم نہیں دیا
تھکنے لگی جو زیست عصا ہو گئی ہوں میں
تبسؔم اعظمی
Tabasum Aazmi