چراغ دل میں وفا کا جلا لیا میں نے
ہزار عیبوں کو اُس کے چھُپا لیا میں نے
مِرے خیال سے بڑھ کر نکل گیا شاطر
سمجھ لیا تھا کبھی جس کو با وفا میں نے
کیا تھا وعدہ رہیں گے ہم ایک ساتھ مگر
دغا دیا مجھے اس کو بھی سہہ لیا میں نے
وہ اپنی ہرزہ سرائی پہ خوب شاداں ہے
خدا سے اس کے سدھرنے کی اب دعا میں نے
جو دیکھا چہرہ ء مکروہ اس کا شیشے میں
خود اپنے ہاتھوں ہی توڑا ہے آئینہ میں نے
ہمیشہ کہتی ہی آئی ہے سلمیٰ یہ سب سے
خدا ہی کُل ہے نہ اس کے سوا کہامیں نے
سلمی رضا سلمیٰ