غزل
چمن ہے ترا اشیانے ترے ہیں
گلوں کی زباں پر فسانے ترے ہیں
گلوں کی زباں پر فسانے ترے ہیں
مری زندگی گر غموں سے بھری ہے
تو دن رات پھر کیوں سہانے ترے ہیں
تو دن رات پھر کیوں سہانے ترے ہیں
گمانِ حقیقت مجھے ہورہا ہے
بہت خوبصورت بہانے ترے ہیں
بہت خوبصورت بہانے ترے ہیں
نہ کیوں رنگ و نکہت کی بارش ہو تجھ پر
جوانی ہے تیری زمانے ترے ہیں
جوانی ہے تیری زمانے ترے ہیں
کہیں رنج وغم تو کہیں پر بہاریں
سمجھ سے سوا تانے بانے ترے ہیں
سمجھ سے سوا تانے بانے ترے ہیں
طلب سے زیادہ دیا تو نے مجھ کو
عطائوں کے کوئی ٹھکانے ترے ہیں
عطائوں کے کوئی ٹھکانے ترے ہیں
کہاں تک تو عمران کا ساتھ دیگا
یہ بازو مجھے آزمانے ترے ہیں
یہ بازو مجھے آزمانے ترے ہیں
احمد عمران اویسی