غزل
چھوڑ زنجیر کو دہائی دے
تاکہ لوگوں کو بھی سنائی دے
کب کہا تھا مجھے خدائی دے
میرے اندر سے تو دکھائی دے
کھینچ سینے سے تیر دھڑکن کا
کھینچ لے اور مجھے رہائی دے
تیری جانب سراغ جائے گا
جان من اتنی مت صفائی دے
میں تری آنکھ میں اتر پاؤں
اس قدر مجھ کو بھی رسائی دے
جی اے نجم