چھین لے مجھ سے میری سچائی
یا عطا کر نہ تابِ گویائی
پھر نیا کوئی گل کھلائے گی
تیری بے جا محاذ آرائی
زندگی ہے بدلتی رت کی طرح
بے سکونی ہو یا شکیبائی
خواب میں آج بھی ہے قوس قزح
اس نے اک بار لی تھی انگڑائی
اس سے انصاف کی توقع کیا
جو نہیں رکھتا تابِ شنوائی
ہر کوئی سنگ اٹھائے پھرتا ہے
بن گئی جرم اپنا سچائی
جب سے ہم ہوگئے ستاروں کے
نیند بھی ہو گئی ڈرامائی
ہم تو الفاظ کے سکندر ہیں
ہر غزل میں ہے شانِ دارائی
ان کی آنکھوں میں بس رہے تھے خلیل
آج جو ہو گئے ہیں صحرائی
مشتاق خلیل