ڈوبتے وقت کے دھاروں سے نکل آئے ہیں
کچھ نئے رنگ اشاروں سے نکل آئے ہیں
آپ کو دیکھ کر اک ایسا معجزہ ہوا ہے
پھول پلکوں کے کناروں سے نکل آئے ہیں
ایسا کیسے ہوا یہ سوچ کے حیران ہوں میں
چند سائے جو ستاروں سے نکل آئے ہیں
اپنی منزل کے سفر کے لیے تنہا چل کر
ہم کہیں دور ہزاروں سے نکل آئے ہیں
جانے کیا حادثہ گزرا ہے کہ چپ چاپ تھے جو
شور کرتے وہ مزاروں سے نکل آئے ہیں
ہم کسی وہم و گماں میں نہیں رہنے والے
تیری یادوں کے سہاروں سے نکل آئے ہیں
آئرین فرحت