غزل
کبھی تائید کرتا ہے کبھی تنقید کرتا ہے
محبت میں محض تقلید کی تردید کرتا ہے
یکایک نام لے کر نیم خوابیدہ سے لہجے میں
مرے ہر جاگتے لمحے کو وہ خوابید کرتا ہے
وہ حاوی اس قدر ہونے لگا کہ اب خیالوں کی
کبھی تحریف کرتا ہے, کبھی تجرید کرتا ہے
پرکھتا ہے عروض و بحر سے اوزان چاہت کے
مجھے باوزن الفت کی سدا تاکید کرتا ہے
وہ خود بھی منفرد لہجے میں اکثر شعر کہتا ہے
روایاتِ غزل کی روز یوں تجدید کرتا ہے
میں جب نومید ہو جاتی ہوں جیون کے اندھیروں سے
ستارے بھر کے آنکھوں میں, وہ پُراُمید کرتا ہے
عنبرین_خان