کسی پناہ میں آئے نہ بے اماں چہرے
بھٹک رہے ہیں نہ جانے کہاں کہاں چہرے
عجیب آگ تھی جس سے گزر کے آئے ہیں
یہ راکھ راکھ بدن اور دھواں دھواں چہرے
خموش رہنے کے سب نے حلف اٹھائے ہیں
نہ کہہ سکیں گے کبھی اپنی داستاں چہرے
شمار زخم کہاں تک لہو لہو ہیں اب
نہ دے سکیں گے کوئی اور امتحاں چہرے
منافقوں سے صبیحہ بچا کے محفل میں
بڑا سکون دلاتے ہیں مہرباں چہرے
صبیحہ خان صبیحہ