غزل
کسی کا خیر کیا کہوں کہ دھیان تک نہیں رہا
میں اپنے آپ پر بھی مہربان تک نہیں رہا
اس ایک لب کے معجزے میں کیا گناؤں گا تجھے
یہ دیکھ میرے زخم کا نشان تک نہیں رہا
تمام شہر جس سے ملنا چاہتا تھا ان دنوں
میں اس سے یوں ملا کہ اس کو جان تک نہیں رہا
ذرا سی بات پر خفا ہوا تھا اور کیا کہوں
سو ہاتھ جوڑنے پہ بھی وہ مان تک نہیں رہا
تمہارا ہجر ایک رات پاؤں سے لپٹ گیا
میں اپنے گھر میں صبح کی اذان تک نہیں رہا
پڑے پڑے یہیں پہ ڈھیر ہو نہ جائے یہ بدن
میں خاک اپنی راستوں پہ چھان تک نہیں رہا
قمر عباس قمر