غزل
کسی ہجر کا کسی قرب کا کوئی سلسلہ جو گزر گیا
مری منزلوں کی نوید تھا وہی راستہ جو گزر گیا
کسے وقت تھا جسے دیکھ کر کوئی سوچتا کوئی پوچھتا
وہی ایک چھوٹا سا سانحہ پس واقعہ جو گزر گیا
وہی اصل متن حیات تھا وہی لفظ روح ثبات تھا
کسی سرسری سی نگاہ سے مرا حاشیہ جو گزر گیا
جہاں رہبری کے کمال میں کئی نام تھے مرے سلف کے
میں اسی کا گرد و غبار ہوں وہی قافلہ جو گزر گیا
نہ بصارتوں کو جگا سکا نہ سماعتوں میں سما سکا
کسی زندگی کا مآل تھا وہی حادثہ جو گزر گیا
جو کھنچا تھا جاں کے خطوط سے جو محیط تھا مری ذات پر
وہ خیال کا مری سوچ کا کوئی زاویہ جو گزر گیا
عابدہ کرامت