کشتی کو کنارے پہ ڈبونا نہیں آتا
جو جیت چکے ہیں اسے کھونا نہیں آتا
یہ کون سی منزل ہے خدا جانے جنوں کی
اب کوئی بھی دکھ ہو ہمیں رونا نہیں آتا
کاندھے پہ ہمارے ہی رہا عشق سلامت
یہ بوجھ کسی اور کو ڈھونا نہیں آتا
تب ذہن میں آتی ہے کوئی اس کے بغاوت
جب ہاتھ میں بچے کے کھلونا نہیں آتا
وہ شخص کہاں جائے مری جان کہ جس کو
جز تیرے کسی اور کا ہونا نہیں آتا
ناز مظفر آبادی