غزل
کوئی تازہ ہو کہ ہو کوئی پرانی چاہئے
وقت کو آگے بڑھانا ہے کہانی چاہئے
تو مری دہلیز پر آ کر ٹھہر جاتا ہے کیوں
تو تو دریا ہے تجھے تو بس روانی چاہئے
ہاتھ میں جس کے بھی دیکھو آگ کا کشکول ہے
اور ہر اک کشکول کو کچھ بوند پانی چاہئے
زندگی اور موت دونوں میں ہے اک رنگ کرم
تم بتاؤ تم کو کس کی مہربانی چاہئے
دل سے مطلب ہے ترے پیکر سے مجھ کو کیا غرض
حکمرانی کو مجھے اک راجدھانی چاہئے
احتشام الحق صدیقی