کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی میں نے
ہر ایک سانس کو سمجھا ہے آخری میں نے
سمجھ گیا وہیں راز وصال جب دیکھا
حباب تیرا مآل شکستگی میں نے
کرشمۂ مئے توحید اے تعال اللہ
سرور ہے مرے ساقی کو اور پی میں نے
لگا کے ان کی محبت میں جان کی بازی
تمام دولت کونین جیت لی میں نے
کسی کا راز سمجھتا گیا جہاں تک بھی
سمجھ میں آیا کہ سمجھا نہ کچھ ابھی میں نے
انا زباں سے نہ کہتے نہ دار پر کھنچتے
کیا ہے قہر یہ منصور آپ کی میں نے
ہے ماورائے سخن برقؔ گفتگو میری
خموش رہ کے بھی اکثر ہے بات کی میں نے
رحمت الہی برق اعظمی