کچھ کام ہمیں ہجر سے نہ اب وصال سے
تم کو چرا لیا ہے تمہارے خیال سے
مجھ سے تو کہہ رہے ہو بھلا دو مجھے مگر
کیا تم نکل سکو گے محبت کے جال سے
پوچھا کبھی کہ زخم بھرے بھی ہیں یا نہیں
کیا کیا بنا لیا ہے درختوں کی چھال سے
بس ایک ہی دعا ہے کہ حبس دور ہو
مشرق سے آئے یا ہوا آئے شمال سے
شکوے گلے لئیے تو بہت دور آ گئے
تم بھی تھکن سے چور ہو ہم بھی نڈھال سے
آئرین فرحت