کڑے سفر کی ہر اک فکر ٹال دیتا ہے
وہ لطف ایسا جدائی میں ڈال دیتا ہے
ہزار رنگ بدلتا ہے صبح ہونے تک
کبھی خوشی، کبھی رنج و ملال دیتا ہے
وہ بولتا ہے تو صدیوں پرانے لفظوں کو
نئے معانی ، نئے خد و خال دیتا ہے
نئی ہے طرزِ عنایت کہ اب کسی کو بھی
وہ پورا ہجر نہ پورا وصال دیتا ہے
یہ کون ہے جو مری ذات کی فصیلوں سے
ہر ایک شب مجھے باہر نکال دیتا ہے
وہ ایک بار نظر بھر کے دیکھتا ہے جسے
پھر اُس کا نام زمانہ اُچھال دیتا ہے
وہ اپنے چاہنے والوں کی انجمن میں نعیم
مری وفاؤں کی اب بھی مثال دیتا ہے
(محمد نعیم جاوید نعیم)