نیم کی چھاؤں وہ پروائی کہیں سے لادو
میری بستی میری انگنائی کہیں سے لادو
صبحپُر نورحسیں شام نہ وہ بزم طرب
مجھکو میری شب_تنہائی کہیں سے لادو
مجھ کو احساس دلائے جو مرے ہونے کا
ایک خاموش تماشائی کہیں سے لادو
غم کی حدت سے دہکتا ہےمراسارا وجود
آج اک دست_ مسیحائی کہیں سے لادو
اب گراں بار گذرتی ہیں وفائیں مجھ پر
دام لے لو دل_ ہرجائی کہیں سے لادو
آج اس شہر_ پریشاں میں اکیلا ہوں بہت
مجھکواےوقت مرےبھائی کہیں سےلادو
چیختے رہتے ہیں سناّٹے شب و روز امین
کھوئی اس شہرکی رعنائی کہیں سےلادو
امین اڈیرائی