غزل
کیسی آشفتہ سری ہے اب کے
کچھ عجب بے خبری ہے اب کے
دیکھ کر اہل گلستاں کا چلن
جان ہاتھوں میں دھری ہے اب کے
شہر کا امن و سکوں ہے عنقا
کیسی یہ فتنہ گری ہے اب کے
موسم فصل خزاں ہے پھر بھی
شاخ دل اپنی ہری ہے اب کے
کور چشموں کو خدا ہی سمجھے
دعویٰ دیدہ وری ہے اب کے
ڈر یہی ہے کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے
شاخ پھولوں سے بھری ہے اب کے
پچھلے سالوں سے زیادہ اے شوقؔ
رنج بے بال و پری ہے اب کے
شوق ماہری